تیونس کے بعد کون کون؟
مبصرین کا خیال ہے کہ یہاں پر بھی ایسا ہی سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جیسے انیس سو نواسی
میں مشرقی یورپ میں کمیونسٹ حکومتوں کے خاتمے کے موقع پر دیکھنے میں آیا تھا۔
مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے کئی ملکوں میں نوجوان اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے، بے روزگاری اور سیاسی نمائندگی کے فقدان جیس مسائل کا سامنا ہے۔
ان میں سے کچھ ملکوں میں اقتدار پر ڈھلتی عمر کے مطلق العنان حکمران قابض ہیں اور انہیں اپنی جانشینی کے سلسلے میں مسائل کا سامنا ہے۔
ایسے کون کونسے ملک ہیں جہاں تبدیلی آ سکتی ہے اور تبدیلی کے اس امکان کی حقیقت کیا ہے؟
مصر
مصر میں ریاست کی روایتی طاقت اور مضبوط بنیادوں کی وجہ سے اب تک یہ سوچنا بھی ناممکن تھا کہ یہاں برسراقتدار حکومت انتشار کا شکار ہو جائے گی۔ لیکن تیونس کے طرح یہاں بھی شہریوں کو معاشی مشکلات، سرکاری اداروں میں کرپشن اور سیاسی نمائندگی کے حق سے محرومی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
پچیس جنوری کو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ احتجاج کرتے ہوئے اس تعداد میں قاہرہ اور دیگر بڑے شہروں کی سڑکوں پر آئے جس تعداد میں وہ ستر کی دہائی میں روٹی پر ہونے والے مظاہروں کے بعد سے کبھی بھی نہیں آئے تھے۔
ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو مصر کے ساتھ ساتھ تیونس کا پرچم بھی اٹھائے ہوئے تھے۔
اس دن سے لیکر آج تک مصر کی گلیوں اور بازاروں میں احتجاج ایک معمول بن چکا ہے جس کی وجہ سے صدر حسنی مبارک کی حکومت بہت کمزور دکھائی دے رہی ہے۔
کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہروں میں لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت اس چیز کی غمازی کرتی ہے کہ مصر میں اصل تبدیلی اب ایک ناگزیر عمل ہے۔ تاہم یہ تبدیلی کیسی ہوگی اس بات کا کسی کو بھی اندازہ نہیں ہے۔
مغربی ملکوں کو خدشہ ہے کہ صدر حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے سے کو خلاء پیدا ہو گا اور جو افراتفری پھیلے گی اس سے مسلح اسلام پسند گروپوں کو پنپنے کا موقع ملے گا۔
امریکہ نے جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے پرامن انتقال اقتدار کا مطالبہ کیا ہے۔
اگر مصر میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوئے تو امید ہے کہ کھلے عام اسلام پسند اور رجعت پسند جماعت الاخوان المسلمین کے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔
لیکن اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ جمہوری اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے اپنے اسلامی ریاست کے قیام کے منشور پر قائم رہ پائے گی۔
اور اگر وہ برسراقتدار آ گئی تو کیا وہ مصر کے امریکی اور اسرائیل سے تعلقات کو برقرار رکھ پائے گی؟
یمن
یمن میں بھی بڑھتی ہوئی غربت اور سیاسی آزادیوں کے فقدان کی وجہ سے پیدا ہونے والے غصہ گلیوں اور بازاروں میں احتجاجی مظاہروں کی شکل میں ظاہر ہو چکا ہے۔
تیونس اور مصر میں ہونے والے واقعات کے بعد یمن کے ہزاروں شہریوں نے دارالحکومت ثنا میں میں ستائیس جنوری کو احتجاج کیا اور صدر علی عبداللہ صالح کے اکتیس سالہ اقتدار کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
نوجوان سیاسی کارکنوں اور اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے حکومت مخالف نعرے لگائے اور معاشی اصلاحات اور کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
جنوبی شہر عدن میں بھی نسبتاً چھوٹے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
یمن عرب دنیا کا سب سے غریب ملک ہے جہاں آدھی سے زیادہ آبادی دو ڈالر یومیہ سے کم پر گزارہ کر رہی ہے۔
بڑھتے ہوئے عوامی غصے کو کم کرنے کے لیے صدر علی عبداللہ صالح نے تئیس جنوری کو انکم ٹیکس کی شرح کو نصف کرنے اور بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ وہ اقتدار اپنے بیٹے احمد کو منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
حکومت نے ان چھتیس افراد کی رہائی کا بھی حکم دیا جنہیں احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔ رہائی پانے والے افراد میں انسانی حقوق کے معروف کارکن توکل کامران بھی شامل ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ صدر علی عبداللہ نے سرکاری ملازمین اور فوجیوں کی تنخواہوں میں اضافہ کا بھی اعلان کیا۔
الجزائر
جیسے جیسے تیونس میں احتجاجی مظاہروں میں شدت آئی، اس کے مغربی ہمسایہ ملک الجزائر میں بھی نوجوان سڑکوں پر نکل آئے۔ تیونس کی طرح یہاں بھی احتجاج کی فوری وجہ معاشی مشکلات خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ تھا۔
الجزائر میں سن انیس سو بانوے سے ایمرجنسی نافذ ہے جس کے تحت اس کے دارالحکومت میں میں جلسے جلوسوں پر پابندی ہے۔ الجزائر میں گاہے بگاہے احتجاجی مظاہرے ہوتے رہتے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں پہلی بار دارالحکومت الجزائر سمیت ملک بھر میں ایک احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے۔ اس ساتھ ساتھ چند مقامات سے خود سوزی کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔
تاہم الجزائر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں اس طرح شدت نہیں آئی جیسے شدت تیونس میں دیکھی گئی تھی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ سکیورٹی فورسز کا محتاط رویہ اور حکومت کی طرف سے قیمتوں میں کمی کے سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات تھے۔
الجزائر میں حکومت کے پاس تیل اور گیس کی برآمد کی وجہ سے کافی دولت موجود ہے اور اس نے سماجی اور معاشی شکایات کے ازالے کے لیے ایک بہت بڑی ترقیاتی پروگرام پر عمل درآمد شروع کیا ہے۔ تاہم ملک میں بے روزگاری، کرپشن، بیوروکریسی اور سیاسی اصلاحات کا فقدان جیسے مسائل اب بھی موجود ہیں۔
تیونس کے برعکس الجزائر کی حالیہ تاریخ بہت ہنگامہ خیز رہی ہے۔ ملک کے سیاسی نظام میں سن انیس سو اٹھاسی میں اصلاحات کی گئی تھیں جس کے نتیجے میں میڈیا پر پابندیوں کا خاتمہ ہوا اور کثیر الجماعتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا۔ اس کا نتیجہ سکیورٹی افواج اور اسلامی شدت پسندوں کے مابین خونی تصادم کی شکل میں سامنے آیا۔
لیبیا
تیونس میں حکومت کے خاتمے کے موقع پر لیبیا کے سربراہ کرنل معمر قذافی نے کہا کہ تیونس کو کا انتظام کوئی بھی بن علی سے بہتر نہیں چلا سکتا۔ ’تیونس اب خوف میں مبتلا ہے۔‘
تیونس میں ہونے والے واقعات پر کرنل قذافی کا ردِ عمل پورے خطے میں تبدیلی کے حوالے سے ان کی اپنی پریشانی کا غماز ہے۔ وہ گزشتہ اکتالیس سال سے اقتداد پر قابض ہیں اور اس طرح مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے سب سے زائد عرصے تک برسراقتدار رہنے والے حکمران ہیں۔
لیبیا میں کسی بھی طرح کے احتجاج پر پابندی ہے لیکن حال ہی میں لیبیا کے شہر البائدہ سے احتجاج کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
حکومت نے عوام کے بڑھتے ہوئے غصے کو کم کرنے کے لیے حال ہی میں ہاؤسنگ سیکٹر میں مزید سرمایہ لگانے کا اعلان کیا ہے۔
اردن
ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کے پیش نظر اردن کے شاہ عبداللہ نے یکم فروری کو حکومت کو برخاست کر دیا ہے اور نئے وزیر اعظم معروف بخت کو کہا ہے کہ وہ ملک میں سیاسی اصلاحات لائیں۔
خطے کے دیگر ملکوں کی طرح اردن میں بھی بے روز گاری اور غربت پر غصہ پایا جاتا ہے اور مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم کو بلا واسطہ انتخابات کے ذریعے منتخب کیا جائے۔
اردن کی سب سے طاقتور اسلامی اپوزیشن جماعت دی اسلامسٹ ایکشن فرنٹ کا کہنا ہے کہ وہ شاہ عبداللہ کو ہٹانے کے کے حق میں نہیں ہے، تاہم وہ نئے وزیر اعظم بخت کی تعیناتی کے خلاف ہیں۔
اردن میں شاہی خاندان کی حکومت ہے اور معاشرے کے کچھ حلقے بادشاہت کے وفادار ہیں۔ شہ عبداللہ کو ابھی تک مظاہرین نے اپنے غصے کا نشانہ نہیں بنایا۔
مراکش
تیونس کی طرح مراکش میں بھی عوام معاشی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور حکومتی حلقوں میں پائی جانے والی کرپشن کے چرچے ہیں۔
مراکش کی شہرت حال ہیں میں وکی لیکس کے سامنے آنے کی وجہ سے بہت متاثر ہوئی ہے جن میں ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن خاص طور پر شاہی خاندان کے کاروباری معاملات اور شاہ محمد ششم کے قریبی لوگوں کے لالچ کا ذکر کیا گیا ہے۔
تیونس میں امریکی سفارتخانے کی طرف سے لکھے جانے والے ایک مراسلے میں صدر زین العابدین بن علی کے قریبی حلقے میں بھی ایسے مسائل کا ذکر کیا تھا۔
تاہم مراکش بھی مصر اور الجزائر کی طرح محدود حد تک اظہارِ رائے کی آزادی دیتا ہے اور ابھی تک وہاں پر ہونے والے مظاہرے زیر کنٹرول رہے ہیں۔
اردن کی طرح یہاں بھی بادشاہت ہے جسے عوامی حلقوں کی طرف سے بہت مضبوط حمایت حاصل ہے۔