اب وہ بھلا کہاں جائے؟
آخر مصری اچانک اتنے عضے میں کیوں آ گئے ہیں؟
مصری طبعاً صابر و شاکر اور مست مولا لوگ ہیں۔ انکی سرشت میں جلد بازی نہیں۔ قاہرہ رات کو تو جاگتا ہی ہے مگر دن میں بھی جاگتا ہے۔ شام کے بعد قہوہ خانوں کے باہر بچھی کرسیوں پر بیٹھ کر گپ بازی مشغلے سے زیادہ قومی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ جوشِ گفتگو میں قہوے کی پیالی میں اس قدر چینی ڈالی جاتی ہے کہ پچیس فیصد آبادی شوگر کی مریض بن چکی ہے۔
عام طبی مفروضہ یہ ہے کہ شوگر کا بنیادی سبب دماغی ٹینشن ہے۔ لیکن مصر میں شوگر کا مرض شوقِ گفتگو کی دین ہے۔ کیونکہ مصری طبعاً نہ ٹینشن لیتے ہیں نہ دیتے ہیں۔ثبوت یہ ہے کہ پچھلے چار ہزار برس سے مصری زیادہ تر ایسے ہی فراعین کے ساتھ گذارہ کر رہے ہیں جو ایک دفعہ اقتدار سے بیاہے گئے تو مر کر ہی محل سے نکلے۔
صدر (ائر چیف مارشل ریٹائرڈ ) حسنی مبارک کو ہی دیکھ لیں۔ سن پچھتر سے آج تک ان کی تصویر دھندلی نہیں ہوئی۔ چھ برس تک بطور نائب صدر انور سادات کی اپرنٹس شپ کی اور تیس برس سے مالکِ کل بنے بیٹھے ہیں۔ مصریوں کو چاہئیے کہ جہاں انہوں نے مبارک کو چھتیس برس برداشت کر لیا وہاں دو چار برس اور سہی۔ اب چوراسی سال کی عمر میں صدارتی محل سے نکل کر بھلا وہ کہاں جائیں۔
مجھ جیسوں کو واقعی حیرت ہے کہ کشادہ دل مصری جو ہر سال سوا کروڑ غیر ملکی سیاحوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔اگر سکندریہ میں کسی چرچ پر بم حملہ ہو تو مقامی عیسائی اقلیت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جہاں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ تین جنگوں کی ہزیمت خندہ پیشانی سے جھیل لی۔ جہاں سیکولر اور کٹر روایات ہاتھ میں ہاتھ ڈالے دریائے نیل کے کنارے ٹہلتی ہیں۔ وہاں یہ مصری پچھلے ایک ہفتے سے اس قدر طیش میں کیوں ہیں؟
لوگ بکتر بند گاڑیوں پر چڑھ کر انہیں آگ لگا رہے ہیں
بظاہر کوئی اتنا بڑا معاشی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ تیل، گیس اور بجلی میں یہ ملک خود کفیل ہے۔گلف اور مغربی ممالک میں کام کرنے والے ساٹھ لاکھ مصری ہر سال گیارہ ارب ڈالر اپنے گھروں کو بھیجتے ہیں۔ سیاحت کا شعبہ سالانہ بارہ ارب ڈالر کما کر دیتا ہے۔ پانچ ارب ڈالر نہر سویز کی ٹرانزٹ فیس سے مل جاتے ہیں۔ امریکہ ہر سال سوا دو ارب ڈالر دیتا ہے۔ انیس سو اکیانوے کی جنگِ کویت میں عراق کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کے بدلے بیس ارب ڈالر کا قرضہ بھی معاف ہوگیا۔اس کے باوجود مصری اتنے طیش میں کیوں ہیں؟
وہ کہتے ہیں کہ بے روزگاری بہت ہے۔لیکن حکومت کہتی ہے کہ بے روزگاری کہاں نہیں ۔مصر میں تو صرف دس فیصد لوگ ہی بے روزگار ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بیس فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے رہ رہی ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ یہ کوئی غیر معمولی بات تو نہیں ہے۔ پاکستان اور بھارت میں تو چالیس فیصد سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ملک میں یک جماعتی اور شخصی آمریت ہے۔ انیس سو سڑسٹھ کی جنگ کے موقع پر جو ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی اسکے تحت آج تک بنیادی حقوق معطل ہیں۔ ملک میں تیس ہزار کے لگ بھگ سیاسی قیدی ہیں۔ لیکن حکومت کہتی ہے کہ یہ حالات صرف مصر میں ہی تو نہیں ہیں۔ چین اور ایران سمیت کئی بڑے اور چھوٹے ممالک کی یہی حالت ہے۔
تو پھر مصری اتنے غصے میں کیوں ہیں؟ وہ بکتر بند گاڑیوں پر کیوں چڑھ کر نعرے لگا رہے ہیں۔حکمران پارٹی کے دفاتر کیوں نذرِ آتش کر رہے ہیں۔گولیوں سے کیوں مر رہے ہیں۔ کیا وہ تیونسی وائرس سے متاثر ہوگئے ہیں۔یا مبارک حکومت کی علاقائی دلالی اور طفیلی پن پر پھٹ پڑے ہیں۔
یہ بات شائد کسی کو بھی سمجھ میں نہیں آئے گی۔
ایران میں آخری امریکی سفیر ولیم سلوان لکھتے ہیں کہ جب رضا شاہ کو انہی کے نامزد آخری وزیرِ اعظم شاہ پور بختیار نے مشورہ دیا کہ آپ عارضی طور پر ایران سے باہر تعطیل پر چلے جائیں تو رضا شاہ نے حیرت سے پوچھا:
’کیوں بھئی؟ کیا لوگ اب بادشاہ سے محبت نہیں کرتے؟
